کامیابی کے اصول

سٹینفورڈ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق کامیاب زندگی میں اعلی ذہانت کا کوئی خاص کردار نہیں ۔اعلی ذہانت ، اعلی گریڈ ، اچھے کالج میں داخلہ اعلی ڈگری ، تجربہ گاہ میں کام کرنے کے لیے تو معاون ہوسکتی ہے مگر یہ کامیابی کی ضمانت ہر گز نہیں ۔ نام نہاد ذہین وفطین عظیم آرٹسٹ ، سائنس دان ، فلاسفر اور بزنس مین عموماً عام صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں مگر انھوں نے اپنی مخصوص صلاحیت ( Talent ) کو خوب ترقی ( Develop ) دی ہوتی ہے ۔ زندگی میں کامیابی کے لیے اعلی ذہانت کے بجائے سماجی ذہانت کا کردار بہت اہم ہے ۔ سماجی ذہانت سے مراد لوگوں سے روابط اور تعلقات بنانے کی صلاحیت ہے اسی طرح اعلی تعلیم یا ڈگری بھی شاندار مستقبل اور مالی خوشحالی کی ضمانت نہیں ۔ دنیا کے سب سے بڑے موجد ایڈین نے ، جس نے ایک ہزار سے زائد ایجادات کیں ، صرف 3 ماہ سکول میں تعلیم حاصل کی ۔ معروف امریکی مقرر ، مصنف اور بزنس مین برائن ٹریسی نے اندازہ لگایا ہے کہ امریکہ میں 50 فی صد کا لج گر یجو یٹ ایسے لوگوں کے ملازم ہیں جنھوں نے میٹرک بھی پاس نہیں کیا ۔ ایک امریکی سروے رپورٹ کے مطابق امریکہ کے 4 ہزارامیرترین افراد ایسے ہیں جنھوں نے صرف میٹرک پاس کیا ۔ ہمارا تعلیمی نظام علم اور معلومات تو فراہم کرتا ہے مگر اس علم کو استعمال کر نانہیں سکھا تا ۔ کامیاب زندگی کے اصولوں سے آگاہ نہیں کرتا ۔اس لیے ایک ماہر نے بہت خوبصورت بات کہی کہ ہم اپنے تعلیمی وسائل کا 100 فی صد ان چیزوں ( ڈگری معلومات اور مہارت وغیرہ ) پر صرف کرتے ہیں جن کا روشن مستقبل اور مالی خوشحالی کے ساتھ تعلق صرف 15 فیصد ہے ۔ اپریل 2007 میں ایک سروے رپورٹ شائع ہوئی جس میں دنیا کے 9500 امیر ترین افراد کی فہرست تھی ۔ان میں سے ایک بھی Ph.D ڈاکٹر نہ تھا ۔ جب تک علم کو استعمال نہ کیا جاۓ ، بے کار ہے ۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ اعلی تعلیم دولت کے حصول میں رکاوٹ ہے کیونکہ ایک لمبا عرصہ تعلیم حاصل کرنا خوشحالی میں تاخیر کا سبب بنتا ہے ۔ جب تک ایک عام آدمی Ph.d کرتا ہے ، شیخ برادری کا نو جوان میٹرک کرنے کے بعد لکھ پتی بن چکا ہوتا ہے ۔ پوری دنیا میں اس چیز پر زور دیا جا تا ہے کہ بچہ زیادہ نمبر حاصل کرے ۔ جب کہ زیادہ نمبر بھی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتے ۔ بدقسمتی سے کہیں بھی بچوں کو کامیابی کے اصولوں سے آگاہ نہیں کیا جا تا اگر چہ ذہانت اور اعلی تعلیم خوشحالی اور کامیابی کی ضمانت نہیں مگر ان کی مدد سے کامیابی کا سالوں کا سفر مہینوں میں طے کیا جا سکتا ہے ۔ چنانچہ ذہانت اور اعلی تعلیم یقینا ترقی میں بہت معاون ہیں ۔ اس طرح بعض شعبے ایسے ہیں جہاں اعلی نمبروں کے بغیر داخلہ ممکن نہیں مثلاً ڈاکٹری ، انجینئر نگ ، ریسرچ اور اعلی تعلیم وغیرہ ۔ ویسے بھی کوئی قوم سائنس دانوں اور ماہر ین ( Experts ) کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی مگر صرف اعلی تعلیم سے خوش حالی اور کامیابی حاصل نہیں ہوتی ۔ یونیورسٹیاں اعلی تعلیم یافتہ اور ذہین افراد سے بھری پڑی ہیں مگر آج تک کسی ایک پی ایچ ڈی نے کوئی قابل ذکر چیز ایجادنہیں کی ( ضرورت اس امر کی ہے کہ ان افراد کو کامیابی کے اصولوں سے آگاہ کیا جائے تا کہ نہ صرف وہ خود کامیاب ہوں ، اپنے طلباء کو کامیابی کے اصول بتائیں بلکہ ملک کی بھی خدمت کر سکیں ) ۔ دوسری طرف شاید ہی کسی کے پاس اپنی نئی ہنڈا یا کرولا گاڑی ہو ۔ ان میں بہت ہی کم خوشحالی کے معیار پر پورے اترتے ہیں ۔ میں ایسے افراد کو جانتا ہوں جنھوں نے یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی مگر وہ ناکامی اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ صرف اعلی تعلیم اور ذہانت سے بہت ہی کم لوگ کامیاب اور خوشحال ہوتے ہیں ۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ کامیابی صرف سخت محنت سے حاصل ہوتی ہے ۔ حالانکہ محنتی اور نا کام لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے جو گدھوں کی طرح دن رات کام کرتے ہیں ، دو ، دو ملازمتیں کرتے ہیں ۔ مز دور سارا دن سخت محنت و مشقت کرتے ہیں مگر وہ خوشحالی سے کوسوں دور ہوتے ہیں بلکہ اکثریت کے لیے تو بل ادا کر نے بھی جان جوکھوں کا کام ہے ۔ کیونکہ صرف سخت محنت سے گدھا بھی گھوڑ انہیں بن سکتا ۔ خوشحالی اور کامیابی کے لیے صرف سخت محنت کافی نہیں ۔ ڈاکٹر تھامس سٹینلے ( T.stanley ) نے 25 سال 733 کروڑ پتی افراد کا مطالعہ کیا کہ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے ۔ اس نے کامیابی اور خوشحالی کے 30 عوامل معلوم کیے ۔ قسمت بھی ابھی لوگوں کا ساتھ دیتی ہے جو خطرہ مول لیتے ہیں ، مثبت سوچ کے مالک ہوتے ہیں ، اپنے شعبے میں ماہر ہوتے ہیں ، عام لوگوں سےزیادہ محنت کرتے ہیں اور ثابت قدم رہتے ہیں ۔ اسی لیے کہا جا تا ہے کہ آپ جتنی زیادہ محنت کرتے ہیں اتنے ہی زیادہ خوش قسمت بن جاتے ہیں

تبصرے

مشہور اشاعتیں